Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر5

صفوان نمل اور حمنہ کو گھر کے گیٹ پہ اتر کر بنا کچھ کہے چلا گیا۔۔۔۔۔۔وه کافی تیز گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ساتھ ساتھ  وه بار بار ذبی کو کال بھی کر رہا تھا لیکن وه اٹھا نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔
صفوان نے ذبی کے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور سیدھا اندر کے جانب بھگا۔۔۔۔۔۔
ذبی کے روم میں گیا تو بیڈ پہ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
Please!  my baby listen to me...!!!
صفوان ذبی کے غصہ سے واقف تھا 
دفع ہو جاؤ نہیں دیکھنی مجھے تمہاری شکل۔۔۔۔۔۔تم وہاں تھے تم اس دو ٹکے کی لڑکی کو چپ کروانے کے بجاے مجھے چپ کروا رہے تھے 
ذبی میری بہن تھی بس اسلئے میں نے تمھیں چپ ہونے کا کہا۔۔۔۔ذبی دیکھو تمھیں پتا ہے سب میں نے کس طرح گھر میں اپنی امیج ٹھیک ہے میں وہاں تمھیں اگر فیور کرتا تو میں حمنہ کو کیا جواب دیتا۔۔۔۔۔
I don't care.......
ذبی میری جان۔۔۔۔۔سوری صفوان نے ذبی کو کندھوں سے پکڑ کے اپنے جانب موڑا 
میں اسے تو وه سبق دونگا جو وه زندگی بھر یاد رکھے گی۔۔۔۔۔لیکن میں جو کرونگا تو ساتھ دو گی صفوان نے ذبی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا 
لیکن تم۔۔۔۔۔۔ذبی پھر سے غصہ کرتی اس سے پھلے صفوان نے اسکے لب پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے 
____________
صفوان بابر کے ساتھ کلب میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا مان گئی ذبی۔۔۔
ہاں کیسے نہیں مانتی۔۔۔۔بس اب پلان میں تھوڑی تبدیلی کرنی ہوگی۔۔۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔۔اب کیا کرے گا تو۔۔۔۔۔۔بابر نے شراب گلاس میں ڈالتے ہوۓ کہا 
پھلے مجھے چاہیے تھی نمل اب ذبی کو بھی چاہیے۔۔۔۔۔۔صفوان نے حرام مشروب ہلک میں اتر تے ہوۓ کہا 
ابے اب کیا مطلب تو کھول کر بتا۔۔۔۔۔بابر کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا صفوان کیا کہہ رہا تھا 
صفوان نے اپنا پلان بابر کو بتایا 
ابے تو میری سوچ سے زیادہ کمینہ نکلا۔۔۔۔۔۔
اب دیکھ تیرا بھائی کیا کرتا ہے۔۔۔۔
____________
صفوان گھر آیا تو سب ساتھ ہی بیٹھے ہوۓ تھے 
کہاں چلے گئے تھے بھئی ڈنر پہ نہیں آے؟شایان صاحب نے ساتھ بیٹھتے صفوان سے کہا 
بس دوستوں نے بولا لیا تھا۔۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔اور بھئی سکینہ بتا رہی تھی ہوگیا آپکا ایڈمشن یونیورسٹی میں۔۔۔۔۔۔شایان صاحب نمل سے مخاطب ہوۓ
جی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔کچھ دنوں بعد کلاس شروع ہو جائے گی 
ڈیڈ ماما مجھے آپ لوگوں سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔
ہاں بولو۔۔۔۔۔
ماما اگر میں کچھ مانگوں گا تو آپ لوگ منع تو نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔
ارے آج تک کسی چیز کے لئے منع کیا ہے۔۔۔۔مانگوں 
ڈیڈ میں۔۔۔۔۔نمل سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔
صفوان کی بات پہ سب اپنی جگا اچانک چونک گئے۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔بیٹا۔۔۔۔۔
ڈیڈ آپ لوگ چاہتے تھے میں ٹھیک  ہو جاؤں دیکھیں میں ٹھیک ہو  گیا ہوں میں اسلئے کہہ رہا ہوں کے مجھے لگتا ہے کے میں اب قبل ہوں نمل کے اور ڈیڈ آپ خود ہی سوچیں اگر آپ کہیں اور اسکی شادی کرواتے ہیں تو وه لوگ اس بات کا فائدہ نہ اٹھائیں کے اکیلی  ہے جو کرنا ہے کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔صفوان پوری مکاری سے لگا ہوا تھا اپنے والدین کو راضی کرنے میں 
نمل تم کیا کہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔شایان صاحب نے کہا 
میرے والدین کے بعد آپ لوگ ہی میرے والدین ہیں آپ لوگ جو فیصلہ کریں گے ٹھیک ہوگا نمل نے کہا اور اٹھ کر چلی گئی 
مجھے ذرا سوچنا ہوگا میں کل بتاتا ہوں۔۔۔۔شایان صاحب بھی کہہ کر آرام کرنے چلے گے 
صفوان تم پکا کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔اور وه لڑکی سکینہ کو صرف ذبی کے بارے میں پتا تھا 
ماما میں اس لڑکی کو اپنی زندگی سے نکل چکا ہوں صفوان اتنی معصومیت اور صفائی سے جھوٹ بولا تھا کے سکینہ کو یقین ہوگیا 
_____________
آپ کیا کہتی ہیں سکینہ۔۔۔۔۔۔کیا مجھے نمل کا ہاتھ صفوان کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔۔۔۔۔شایان صاحب۔۔۔۔نے بستر پہ بیٹھی سکینہ سے کہا 
میں بھی اس ہی الجھن میں ہوں۔۔۔اَللّهُ کا ڈر ہے دل میں ایک یتم کا معملہ ہے۔۔۔۔
اس ہی بات کی مجھے بھی فکر ہے اگر میں نے کوئی غلط فیصلہ کردیا تو روزے محشر اپنے بھائی کو کیا منہ دیکھاوں گا 
شایان صفوان اب ویسا نہیں رہا مجھے لگتا ہے نمل کے قدم بہت مبارک ہیں جب سے ماشاءاللّه گھر میں آئی ہے سب کچھ اچھا  ہو رہا ہے اور مجھے لگتا ہے صفوان کی پسند ہے تبھی اس نے کہا 
درست کہا آپ نے اگر بیٹے کی پسند ہے تو کروا دیتے ہیں 
_____________
الہی امام صاحب کے پاس آیا ہوا تھا۔۔۔۔۔امام صاحب میں نے اسے دیکھا میں نے اسے چار سال بعد دیکھا وہی تھی وه اس ہی شہر میں ہے۔۔۔۔۔۔وه خوش بھی تھا ساتھ آنکھوں سے آنسوں بھی بہہ رہے تھے 
اچھی بات ہے یہ میں نے کہا تھا نہ اَللّهُ پہ یقین رکھو بچے دیکھا اس نے کیسے تمھیں امید دلائی ہے۔۔۔۔۔اب جیسے اس نے تمھیں امید دلائی ہے ویسے ہی وه تمھیں اس سے ملا بھی دے گا 
سچ میں۔۔۔۔۔ایسا ہوگا۔۔۔۔۔اسے یقین نہیں آرہا تھا 
بلکول میرے بچے بس یقین اور صبر کا دامن تھام کے رکھنا۔۔۔۔۔ 
__________
وه پچھلے دو دن سے بہت خاموش تھی۔۔۔۔ابھی بھی کھڑکی پہ بیٹھی نہ جانے باہر کیا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی 
تم کب تک ایسی بیٹھی رہو گی مدرسہ بھی نہیں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔وشما کو بھی اب اسکی فکر ہونے لگی تھی 
میں تم سے کہہ رہی ہوں۔۔۔۔وشما نے جواب نہ پا کر پھر کہا 
مجھے کہیں بھی نہیں جانا نہیں کر میرا دل کہیں جانے کا اس نے کھوے کھوے انداز میں کہا 
یار مجھے نہیں آتی تمہاری سمجھ ایک طرف تم اسکو بھول نہیں پاتی اور دوسری طرف اسکے دیے دھوکے اور اس سے کہتی ہو نفرت ہے۔۔۔۔۔یار چار سال ہو گئے ہیں آگے بڑھ جاؤ 
کیسے بڑھ جاؤ شوہر ہے وه میرا نکاح ہوا تھا میرا اس سے میں آج بھی وہیں ہوں جو میرا اس سے رشتہ ہے نہ وه مجھے آگئے بڑھنے نہیں دیتا میں نے۔۔۔۔۔۔کبھی بھی۔۔۔کبھی بھی کسی لڑکے سے کسی بھی قسم کا کوئی رشتہ نہیں رکھا کیوں کے میں اپنی ساری محبت اپنے شوہر پہ نیچہاور کرنا چاہتی تھی ...۔۔۔۔۔مگر جس رشتے کے لئے میں سب کیا وہی بے وفا دھوکے باز نکلا۔۔۔۔۔وه پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی 
لیکن۔۔۔۔کچھ تو کرو گی نہ کب تک ایسے اکیلے رہو گی چلو بس اب چپ ہوجاؤ نہیں رو نا اب تم نے۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے میں آجاؤں آفس سے پھر شام میں کہیں باہر چلیں گے 
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔اسنے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہا 
___________
صفوان بابر سے ملنے آیا تھا شافع بھی ساتھ تھا۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہیرو مان گئے گھر والے۔۔۔؟بابر نے کہا 
ہاں جانی مان گئے تیرے بھائی نے ایکٹنگ ہی اتنی کمال کی تھی۔۔۔۔۔
یہ بتا ہمیں دعوت دے گا کے نہیں۔۔۔۔۔۔؟
نہیں یار گھر میں سادگی سے کہا ہے کرنے کو میں نے۔۔۔۔
مگر کیوں۔۔۔۔۔؟
کیوں کے ایک ایسا سپرائس دینا ہے جو محفل میں نہیں دے سکتا ورنہ میری ہی عزت خراب ہوگی 
صفوان میں ابھی بھی کہہ رہا ہوں مت کر کیوں تو تولا ہوا ہے اسکی زندگی برباد کرنے پہ 
تجھے کیوں اتنی ہمدردی ہو رہی ہے دیکھ رہا ہوں میں آج کل سب سے کٹا کٹا رہتاہے 
صفوان مجھے ہمدردی ہو رہی ایک انسان ہونے کے حثیت سے۔۔۔اور میں کٹا کٹا نہیں رہنے لگا ہوں سیدھے راستے پہ آنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ تم لوگ بھی آجاؤ سیدھے راستے پہ ورنہ بہت پچھتاؤ گے 
دیکھ یار پلز یہ نیکی کا لیکچر  مجھے نہیں دے۔۔۔۔۔صفوان نے سیگریٹ جلاتے ہوۓ کہا 
صفوان میں دیکھ رہا ہوں تو آنے والے وقت میں بہت بچھتانے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ شفع میری زندگی میں ٹانگ مت اڑا۔۔۔۔۔۔صفوان نے اسکا کولر پکڑ کے غصہ سے کہا 
کیا کر رہا ہے صفوان چھوڑ اسے بابر نے آکر صفوان کو پیچھے کیا۔۔۔۔۔
اسے بول دے آج کے بعد مجھے اپنا منہ نہ دیکھائے۔۔۔۔۔نہیں ہے تو میرا دوست۔۔۔۔صفوان بہت غصہ میں آگیا تھا 
ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں لیکن میری باتوں کو یاد رکھنا کیوں ایک دن تو خود چل کر آے گا میرے پاس۔۔۔۔۔۔شفع کہہ کر چلا گیا 
___________
الہٰی اپنے روم میں جا رہا تھا تبھی اسکے کانوں میں اسکی بہن کی آواز آئی جو کے اسکے بابا کے روم سے آرہی تھی الہی دروازے کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا 
آپ لوگوں کو ذرا ترس نہیں آتا بھائی پے وه کس قدر اکیلے ہیں کیسے والدین ہیں آپ لوگ۔۔۔۔۔
ترس اس پہ  کھایا جاتا ہے جو قابل ہو لیکن اسے نے یہ اکیلاپن خود پسند کیا ہے اور اس نے جو کیا ہے نہ وه قابل نہیں ہے کے ہم ترس کھائے۔۔۔۔یہ آواز اسکے بابا کی تھی انکے الفاظ کسی تیر کی طرح اسکے دل پہ لگے 
اسنے گناہ کیا تھا گناہ۔۔۔۔یہ تم بھی جانتی ہو وه بھی جان کر۔۔۔۔۔
واہ۔۔۔ماما واہ آپ کون ہوتی ہیں بھائی کے گناہ کی سزا دینے والی جب وه رب بندے کی توبہ پہ اسکے گناہ معاف کر دیتا ہے تو آپ لوگ کون ہوتے ہیں اسکا گناہ معاف نہیں کرنے والے آپ لوگ کون ہوتے ہیں سزا دینے والے کیا انکے لئے یہ سزا کافی نہیں کے انکی بیوی انکی اولاد انکی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے چلے گئے کیا انکے لئے یہ کافی نہیں کے جس نے عشق ہوا وه چلی گئی اور آج چار سال گزر گئے ہیں لیکن میرا بھائی تھک گیا ڈھونڈ کے وه نہیں ملی کیا یہ کافی نہیں کے انکے ماں باپ نے ان سے چار سال سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔کیا یہ سزا کافی نہیں کے وه ساری رات مصلہ پہ روتا رہتا ہے کیا یہ کافی نہیں کے وه پچھلے چار سال سے سکون کی نیند نہیں سویا سوتا بھی ہے تو نیند کی گولیاں لے کر سوتا ہے۔۔۔۔میں بہن ہوں اسکی اسکی   تکلیف پہ میرا کلیجہ پھٹ پڑتا ہے آپ لوگ والدین ہو کر اسکی تکلیف محسوس نہیں کرتے میں۔۔۔۔۔میں نے پچھلے چار سالوں سے اسے ہستا ہوا نہیں دیکھا میرا وه بھائی کہیں کھو گیا ہے۔۔۔۔۔۔بھائی کے درد پہ اسکی آنکھیں بھی رو رہی تھی۔۔۔۔۔
دونوں خاموش بیٹھے تھے باہر کھڑے الہی کی آنکھوں سے بھی آنسوں بہہ رہی تھے 
اور ویسے بھی جس کے وه گناہگار ہیں وه خود انھیں سزا دیے گی وه کہہ کر باہر چلی گئی۔۔۔۔۔وه جیسی باہر آئی تو الہی کھڑا تھا اسکا چہرا آنسوں سے تر تھا 
بھائی۔۔۔۔۔وه اور کچھ کہتی الہی باہر چلا گیا 

   1
0 Comments